دعا ئے پدر
بھیگی پلکیں، شب کا منظر، صحنِ کعبہ اور پدر
امتِ محبوب کے غم میں سلگتا اک جگر
درد میں ڈوبی ہوئی آواز سے لپٹا اثر
ہاتھ اٹھائے اور یوں گویا ہوا وہ دیدہ ور
اے خدائے ذوالمنن! دے مجھ کو وہ لختِ جگر
پھونک دے دنیا کی اس ظلمت میں جو رنگِ سحر
پھینک دے کاشانہِ باطل میں جو حق کا شرر
وہ چلے تو سارے جذبے ہوں اُسی کے ہم سفر
وہ جو بولے تو گریں ہونٹوں سے حکمت کے گہر
وقت کی مایوسیوں میں دے اجالوں کی خبر
ٹال دینا جو بھی راہوں میں کہیں الجھے بھنور
سوئے طیبہ جارہی ہو اُس کی ہر اک رہگذر
مصطفی کے عشق سے لبریز وہ آواز ہو
روح کی تسکین ہو وہ دھڑکنوں کا ساز ہو
قدسیوں کے سنگ اڑتی فکر کی پرواز ہو
وقت کے ماتھے پہ روشن اس کا ہر انداز ہو
برکتوں میں اس کا ہر انجام، ہر آغاز ہو
تیرے دیں کا ترجماں، میرے وطن کا ناز ہو
سب سے ہو وہ منفرد اور سب سے وہ ممتاز ہو
علم کا دھارا ہو وہ، دانش کا وہ شہباز ہو
شورِ باطل کو وہ لرزاتا ہوا جاں باز ہو
دیدہِ بینا کے بھی اُس پار کا ہمراز ہو
پھر کرم نے دیکھ لی سوئے فلک اٹھتی نظر
رکھ دیا دستِ دعا میں، دستِ قدرت نے ثمر
وقت آیا تو زمانے بھر میں ظاہر کردیا
روح سے نکلی صدا کو رب نے ’’طاہر‘‘ کردیا
(انوارالمصطفی ہمدمی)
میرا قائد
اُمت کے مقدر کا ستارا مرا قائد
اس دور کے ہر دُکھ کا مداوا مرا قائد
اِس عہد میں ہے دین کے ماتھے کا وہ جھومر
اسلام کی خاتِم کا نگینہ مرا قائد
اقبال جسے ڈھونڈتا پھرتا تھا جہاں میں
اُس مردِ قلندر کا نمونہ مرا قائد
ظلمات میں ڈوبا ہوا تاریک جہاں ہے
امید کی کرنوں کا اجالا مرا قائد
ہوجاتے ہیں سرشار سبھی عشقِ نبی (ص) سے
جب دیتا ہے وِجدان کا جُرعہ مرا قائد
سرگرم عمل اور بھی لیڈر تو ہیں دیکھے
پر سب سے جدا سب سے نرالا مرا قائد
بھٹکی ہوئی مِلت کو یہ منزل کا نشاں دے
ہے رُشد و ہدایت میں یگانہ مرا قائد
امت کے لئے ماہیئِ بے آب کی مانند
دن رات تڑپتا ہے سلگتا مرا قائد
ہر آن ہے مصروفِ عمل قوم کی خاطر
اس مِشن میں یکتا و یگانہ مرا قائد
دنیا کے جو حالات تھے جینے کے نہیں تھے
ملتا جو نہ جینے کو سہارا مرا قائد
ہمذالی دعا ہے کہ سدا ساتھ رہے یہ
اللہ کی رحمت کا ہے سایا مرا قائد
(انجینئر اشفاق حسین ہمذالی)